خلیجی خبریںعالمی خبریں

24 سال تک شام کے سیاہ و سفید کے مالک طاقتور حکمران بشارالاسد ملک سے کیسے فرار ہوئے،تفصیلات سامنے آگئیں

بشار الاسد کا فرار: نقدی، خفیہ دستاویزات اور قریبی حلقہ ساتھ لے کر روس روانگی

خلیج اردو
دمشق:
شام کے سابق صدر بشار الاسد، جو 24 سال تک آہنی ہاتھوں سے اقتدار پر قابض رہے، حکومت کے خاتمے سے قبل ایک خفیہ اور منظم منصوبے کے تحت ملک سے فرار ہو گئے۔ رائٹرز نے 14 باخبر ذرائع، سیٹلائٹ تصاویر، پروازوں کا ڈیٹا اور واٹس ایپ پیغامات کی مدد سے انکشاف کیا ہے کہ الاسد نے اپنے اقتصادی مشیر یاسر ابراہیم کی معاونت سے قیمتی سامان، نقدی اور حساس دستاویزات چار نجی پروازوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیں۔

Embraer Legacy 600 ماڈل کا یہ طیارہ، جس کا رجسٹریشن نمبر C5-SKY ہے، 6 سے 8 دسمبر کے دوران دمشق اور روسی زیر انتظام لاذقیہ کے ہوائی اڈے سے پروازیں کرتا رہا۔ آخری پرواز 8 دسمبر کو روس روانہ ہوئی جس پر بشار الاسد بھی سوار تھے۔ اس سے قبل تین پروازوں کے ذریعے ان کے قریبی عزیز، صدارتی محل کا عملہ، لاکھوں ڈالرز کی نقدی، قیمتی اشیاء، پینٹنگز، اور "دی گروپ” نامی کاروباری نیٹ ورک سے متعلق خفیہ دستاویزات و ہارڈ ڈرائیوز منتقل کی گئیں۔

ذرائع کے مطابق "دی گروپ” دراصل ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ، توانائی، اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں پر مشتمل وہ کارپوریٹ جال تھا جس کے ذریعے الاسد شام کی معیشت پر کنٹرول رکھتے تھے۔ یہ نیٹ ورک یاسر ابراہیم اور احمد خلیل خلیل جیسے قریبی ساتھیوں کے ذریعے چلایا جاتا تھا، جن پر مغربی ممالک پہلے ہی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔

ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ طیارہ لبنانی بزنس مین محمد وہبے سے حاصل کیا گیا تھا، جسے "لبنانی طیارہ” کہا جاتا تھا۔ محمد وہبے نے اگرچہ کسی تعلق سے انکار کیا ہے، تاہم ان کا طیارہ دسمبر میں شام سے اڑان بھرتا رہا اور اس کی تصاویر ان کے سوشل میڈیا پر بھی دیکھی گئیں۔ طیارہ گیمبیا میں رجسٹرڈ تھا اور اسے ایک ایسے نظام کے تحت استعمال کیا گیا جس میں عملہ یا انشورنس فراہم نہیں کی جاتی، یعنی ’ڈرائی لیز‘۔

اسد کے فرار کی آخری منزل روسی فضائی اڈہ ’حمیمیم‘ تھی جہاں سے وہ روس روانہ ہوئے۔ ان کی موجودگی آخری لمحے تک خفیہ رکھی گئی، حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی ان کے مقام کا علم نہ تھا۔ دمشق میں ایئرپورٹ عملے، انٹیلیجنس افسران، اور صدارتی محافظین نے اس پورے عمل کو نہایت راز داری سے انجام دیا۔ ایئرپورٹ کے اعلیٰ افسر بریگیڈیئر جنرل غدیر علی نے تمام اسٹاف کو تاکید کی: "تم نے یہ طیارہ دیکھا ہی نہیں۔”

اس وقت شام کی نئی حکومت، صدر احمد الشراء کی قیادت میں، ان چوری شدہ قومی اثاثوں کی بازیابی کے لیے کوشاں ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے مطابق سابق صدر کی حکومت کے خاتمے سے قبل بھاری رقم بیرون ملک منتقل کی گئی جس کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔ اگرچہ رائٹرز یہ تعین نہیں کر سکا کہ اسد نے خود فرار کے آپریشن کی نگرانی کی، مگر تمام ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی اجازت ان کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button