
خلیج اردو
قطر: اسرائیل کی طاقت کا غمار اتر گیا، 15 مہینوں سے زائد عرصہ سے غزہ میں نہتے فلسطینوں پر قیامت خیز مظالم ڈھانے کے بعد مذاکرات کے ذرائعے حماس سے جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا۔ 19 جنوری سے نافذ العمل معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہے جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی شامل ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کا باضابطہ اعلان قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی نے کیا،ایک پریس کانفرنس میں قطری وزیراعظم نے کہا معاہدپ خطے میں امن ،اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافے کا بھی باعث بنے گا،
ذرائع ابلاغ کے مطابق 3 مرحلوں پر مشتمل معاہدے کا پہلا مرحلہ 6 ہفتوں پر مشتمل ہوگا،اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کی سرحد کے اندر 700 میٹر تک خود کو محدود کرلے گی،، اسرائیل تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں عمر قید کے 250 قیدی بھی شامل ہوں گے جبکہ غزہ میں موجود 33 اسرائیلی مغویوں کو بھی رہا کیا جائے گا،،، زخمیوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر سفر کی اجازت دی جائے گی۔معاہدہ کے ابتدا کے7 روز بعد اسرائیل مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھول دے گا،اسرائیلی فوج مصر کے ساتھ سرحد فلاڈیلفی راہداری سے پیچھے ہٹ جائے گی اور آئندہ مراحل میں اس علاقے سے واپس چلی جائیں گی۔
فلسطینیوں نے آنسوؤں کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا،جنگ بندی کے بعد غزہ میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے، معصوم شہریوں کی آنکھیں بھر آئیں،،،کئی فلسطینی پیاروں کو کھونے پر ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے،، ایک فلسطینی ماں نے کہا ہاں میں رو رہی ہوں مگر یہ خوشی کے آنسو ہیں،،اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کا اظہار تشکر،،، حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے خاندانوں کا بھی جنگ بندی معاہدے پر اظہار تشکر،، ہم تمام فریقوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ جنگ کا کریڈٹ لینے لگے،،، ٹرمپ نے جنگ بندی معاہدے کا سہر اپنے سر پر باندھتے ہوئے کہا یہ معاہدہ ان کی نومبر کی تاریخی انتخابی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں تھا،،ٹرمپ کا کہنا تھا نومبر کی فتح امریکہ اور دنیا کے لئے ایک نئی شروعات ہے۔ وائٹ ہاؤس میں واپسی سے پہلے ہی میں نے بہت کچھ حاصل کر لیا،، جو بائیڈن کہتے ہیں غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ امریکہ کی بہترین سفارتکاری ہے،مئی میں پیش کیے گئے جنگ بندی منصوبے کو درست شکل میں آگے بڑھایا،،معاہدہ خطے میں امن اور انسانی امداد کی فراہمی کے لئے اہم پیش رفت ہے۔
اقوام متحدہ ،،سعودی عرب،، برطانیہ ترکیے مصر سمیت عالمی برادری نے غزہ میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوترس نے کہا جنگ بندی سے امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی،،سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ،اسرائیلی فورسز کی واپسی کیلئے معاہدے پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے،، برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر کہتے ہیں کئی مہینوں کی تباہ کن خونریزی کے بعد معاہدہ خوش آئندہے،، ترک صدر رجب طیب اردگان نے امید ظاہر کی کہ معاہدہ سے فلسطینیوں اور خطے میں استحکام،، پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی،،مصر کے صدرالفتاح السیسی کا کہنا تھا انسانی امداد میں تیزی لانا ہوگی،،،یورپی یونین کے صدر نے کہا خطے میں امن کیلئے دونوں فریق ذمہ داری کا مظاہرین کریں۔
حماس اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے جنگ بندی معاہدے پر کہا ہے فلسطینی اسرائیلی مظالم کبھی نہیں بھولیں گے،،،جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے،،، نہ معاف کریں گے،، انہوں نے پیغام میں کہا کہ اس جنگ میں ہمارے قائدین اور شہدا کی تجارت اللہ کے ساتھ ہے، یہ تجارت کبھی ضائع نہیں ہوگی۔
غزہ میں کب کیا ہوا اور کسے کتنا نقصان ہوا
15 ماہ تک جاری رہنے والی اس بہیمانہ جنگ میں غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے روزانہ بمباری، اموات، جبری انخلا اور بھوک اور ایندھن اور مواصلاتی نظام کی بندش کو فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں سے میں مجموعی طور پر 46,707 کے قریب فلسطینیوں کو شہید جبکہ 110,265 کو زخمی کیا۔ شہید ہونےوالوں میں زیادہ تر فلسطینی بچے اور خواتین شامل ہیں،، مختلف واقعات میں 173 صحافی نشانہ بن گئے۔ 15
جابر اسرائیلی فون سے نہ کوئی سکول محفوظ رہا نہ کوئی ہسپتال،، غزہ میں 36 ہزار 276 سے زائد مکانات بمباری سے تباہ ہوگئے، خان یونس میں 18 ہزار 890 گھر، دکانیں اور دیگر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنیں،رفح میں ٹینکوں سے گولہ باری کر کے 13 ہزار 237 گھروں کو مسمار کر دیا گیا
اسرائیل کے ان حملوں کی ابتدا سات اکتوبر کو حماس اور دیگر تنظیموں کے حملوں کے بعد شروع ہوئی،، جس میں 1139 اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی،، اسرائیل فوج نے جنگ کےدوران صرف 405 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے،، تاہم حماس کا دعویٰ ہے کہ مارے گئے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ فسطائیت اور بربریت کی مثال یہ جنگ اب تک اسرائیل کی سب سےلمبی جنگ ہے۔ جسے اسرائیل نے تمام تر بین الاقوامی مطالبوں کے باوجود جاری رکھا۔