خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کر دیئے۔۔۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی سماعت کے عدالتی حکم نامے کے مطابق بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے۔
فیصل واوڈا اور مصطفی کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں،عدالت نے پیمرا سے پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کر لیے۔ عدالت نے فیصل واڈا اور مصطفی کمال سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 5 مئی تک کیلئے ملتوی کردی۔
فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا۔اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اسکی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی۔بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا،دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے،
ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا سارے میڈیا نے اسے چلا دیا۔ پریس کانفرنسز کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ایک ہی طرز کی پریس کانفرنسز ہورہی ہیں۔
سماعت کےآغاز میں چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا پریس کانفرنس توہین آمیز ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو میں نے سنی ہے اس میں الفاظ میوٹ تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا،نظرانداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، برا کیا ہے تو نام لیکر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دینگے، ادارے عوام کے ہوتے ہیں،اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں