
خلیج اردو
اسلام آباد:پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کیس میں عملدردرآمد بینچ بنانے پر سوال اٹھا دیئے،استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے جج ساتھی ججز کو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دے سکتے ہیں؟ کیا عملدرآمد بینچ اگر فیصلے پر عمل نہ کرا سکے تو ساتھی ججز کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی؟ کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے کو حکم دے سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ کے کون سے حکم میں تبدیلی چاہتے ہیں؟ اڑھائی سال تاخیر سے درخواست مقرر ہونے پر کارروائی چاہتے ہیں تو متعلقہ آفس پر الزام لگائیں،ہم تحقیقات کریں گے۔ وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا مقدمات مقرر کرنا عدالت کا اندرونی معاملہ ہے،،،کسی پر الزام نہیں لگا سکتا،،، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، ہم اپنے طور پر کارروائی کریں گے ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے جو رقوم سپریم کورٹ میں جمع کرائیں،،، وہ کہاں سے آئیں؟،،، کیا یہ درست ہے کہ بیرون ملک ضبط رقم بھی جمع کرائی گئی؟،،، وکیل نے کہا وہ سب ایک معاہدے کے تحت ہوا،،، اور ادائیگیاں شیئر ہولڈرز نے کی تھیں،،،، بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار896 ایکڑ زمین الاٹ ہونا تھی مگر صرف 11 ہزار ایکڑ دی گئی،،، اسی لئے 2022 کے بعد قسط بھی جمع نہیں کرائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا منصوبے کا لے آؤٹ پلان کہاں ہے؟،،، اگر زمین تھی،،، نہ ہی لے آؤٹ پلان،،، تو پھر آپ کام کیسے کررہے ہیں؟، یہ تو غیرقانونی ہوا،،، ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بحریہ ٹاؤن کو زمین دینے سے انکار پر لاعلمی کا اظہار کیا، کہا ایم ڈی اے نے سندھ حکومت سے لیز پر زمین لے کر بحریہ کو دی تھی، اس لئے رقم اسے ملنا چاہئے،،، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراض کیا کہ زمین کی مالک ہونے کے باعث رقم کی اصل حقدار صوبائی حکومت ہے۔
عدالت نے متفرق درخواستوں پر سندھ حکومت، ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کی طرف سے ادائیگی کرنے والے تمام افراد کو نوٹس جاری کر دیئے، جبک ایم ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے بحریہ ٹاؤن کو دیئے گئے تمام اجازت ناموں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں، عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ معلومات لے کر جواب جمع کرائیں، کیس کی مزید سماعت اب 8نومبر کو ہوگی۔