
۔اسلام آباد:سسپریم کورٹ نے نیب قانون میں کئی گئیں سابقہ حکومت کی دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔۔ 58 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے گئے ہیں۔ فیصلے کے ساتھ دو صٖفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے جس کے مطابق پارلیمنٹ پاکستان کے 24کروڑ عوام کے منتخب کٸے گٸے نماٸندوں کا ایوان ہے،پارلیمنٹ کے قانون کو کالعدم پارلیمنٹ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے تحریر کردہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔۔۔احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جاتے ہیں ۔۔ہدایت کی جاتی ہے کہ نیب سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجتے ہوئے تمام تحقیقات اور انکوائریز کو بحال کرے۔
فیصلے میں کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم ،پلی ترمیم کا سیکشن 8 کالعدم قرار دیا گیا ہے۔تاہم آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی ۔۔فیصلے کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ کا لکھا گیا دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ کیس کا اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ سے سیاسی بحث کو سپریم کورٹ منتقل کرنے کے ایک رکن پارلیمنٹ کے غیر آئینی مقصد کا شکار ہوا،
ہوتی،
جسٹس منصور علی شاہ کے نزدیک کیس کا بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہے، پارلیمنٹ پاکستان کے 24کروڑ عوام کے منتخب کٸے گٸے نماٸندوں کا ایوان ہے، پارلیمنٹ نے جو کچھ کیا،اسے پارلیمنٹ کالعدم کر سکتی ہے،پارلیمنٹ کی قانون سازی کی طاقت کبھی ختم نہیں جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق یہ سوال پارلیمانی آٸینی جمہوریت کی اہمیت کا ہے، یہ سوال ریاست کے تین ستونوں اور طاقت کی تقسیم کا ہے۔
یہ معاملہ محدود عدالتی حدود کا ہے جس میں ججزغیر منتخب ہوتے ہیں۔