پاکستانی خبریں

نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپیل کا حق نہیں ملے گا، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کی درخواستیں مسترد کردیں

خلیج اردو

اسلام آباد: عدالتی عظمی نے پی ڈی ایم حکومت میں منظور کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ درست قرار دیتے ہوئے ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردی۔۔10 پانچ کے تناسب سے اکثریتی فیصلے میں فل کورٹ نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کو آئینی قرار دیتے ہوئے حکم امتناع کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔۔ایکٹ میں 184 تھری کے تحت اپیل کے حق کو 9۔6 سے منظور کر لیا۔ اپیل کا اطلاق ماضی سے کرانے کی حدتک 7۔8 ججز نے شق کالعدم قرار دے دی۔عدالتی فیصلے کے بعد ایکٹ قانون بن گیا

5 سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ کر لیا۔۔۔5 کے مقابلے 10 ججز کی اکثریت سے سپریم کورٹ نے ایکٹ کو درست قرار دیتے ہوئے مخالفت میں دائر درخواستوں کو مسترد کردیا۔

سپریم کورٹ نے چار صفحات کا مختصر تحریری فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود، ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آٸین کے مطابق درست قرار دیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کی درخواستیں منظور کیں

اختلاف کرنے والے ججز کے مطابق سپریم کورٹ فیصلہ سے سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہوگئے۔ ایکٹ میں دیئے گئے اپیل کی حق تک 6 کے مقابلے میں 9 ججز نے قانون سے اتفاق کیا ہے تاہم اپیل کا اطلاق ماضی سے کرانے کے معاملے میں 7 کے مقابلے میں 8 ججز نے اختلاف کیا ہے۔ یوں قانون کا اطلاق اس عدالتی فیصلے کے بعد کے فیصلوں پر ہوگا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 8 رکنی بینچ کا دیا گیا حکم امتناع ختم ہونے سے ایکٹ باقاعدہ قانون بن گیا۔عدالتی تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہوگا جس کے ساتھ پانچ ججز کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہوں گے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر آخری دن کی سماعت میں بھی چیف جسٹس اور ججز کے درمیان نوک جھونک جاری رہی۔۔۔چیف جسٹس کی جانب سے نام لیے بغیر سابق چیف جسٹس کے کنڈکٹ پر تنقید۔۔۔۔ریمارکس دیئے کہ ماضی میں بینچز ادھر ادھر ہوتے رہے۔ ججز سے کہا جاتا رہا کہ آپ فلاں فلاں کیسز نہیں سن سکتے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے جو موجود ہے ہم اسی پر بات کریں گے۔ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ڈیبیٹ کرنے نہیں آئے، قانون پر دلائل دیں۔

سپریم کورٹ پریکٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کی درخواستوں پر پانچویں دن کی سماعت بھی اہم ریمارکس سے خالی نہ رہی۔ چیف جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے، جسٹس منیب اخترنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آئین کا آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔

 

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آرٹیکل 191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں، آرٹیکل 192 میں لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو انٹری 58 سے نکلتی ہے، صوبائی اسمبلی کیوں یہ قانون سازی نہیں کر سکتی؟ ان معاملات میں مشکلات ہیں، ون سائز فٹس آل نہیں چل سکتا یہاں پر۔۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس پر تنقید کہا کہ یہاں بنچ ادھر ادھر کر کے فیصلے کئے جاتے رہے وہ ٹھیک ہے؟ جج کو روکا بھی جاتا رہا کہ آپ فلاں کیس نہیں سن سکتے، عابد زبیری کے لئے بھی سوال چھوڑ رہا ہوں وہ اس پر بات کریں نا، میں خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا ،اتنا نہ مجبور کریں کہ بولنا پڑے اب بول دیا ہے، کیا سپریم کورٹ میں بنچ ادھر ادھر کر کے فیصلے بدلنا ٹھیک تھا؟ کسی درخواستگزار میں ہمت نہیں ہوئی کہ اس معاملے پر بات کرتا، درخواست گزار ہمارے محافظ بنتے ہیں تو پھر آئین کے محافظ بنیں نا،بہت ہو گیا یہ کھلواڑ کہ پارلیمنٹ یہ نہیں کر سکتی وہ نہیں کر سکتی۔مان لیں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے ملک کو 6 سو ارب کا نقصان دیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے پریکٹس۔ اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سوالات اٹھا دیئےکہا جو مسئلہ تھا پارلیمینٹ اس کو ٹھیک کرتی،۔ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تھری سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا، پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کے لیے ججز کمیٹی بنا دی،پورا سپریم کورٹ ایک ٹائی ٹینک ہے ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔

 

چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا آئین چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر تسلیم نہیں کرتا ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ماسٹر تو ایک ہی ہے اوپر والا،نوآبادیاتی نظام سے ہی ماسٹر کی اصلاح لینی ہے؟ ہم تو 14 سو سال پہلے کی طرف دیکھتے ہیں ،جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے اس میں نہ جائیں کیا نوآبادیاتی ہے کیا نہیں ہمارے سامنے جو ہے اس پر فوکس کریں، تین ججوں کو اختیار دیا گیا اس کو فل کورٹ کر دیں نا ،کسی کو شکایت ہے پہلے فل کورٹ نہیں ہوتی تھی تو اب کر لیں کس نے روکا ہے؟

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button