خلیج اردو
اسلام آباد: خصوصی عدالت کے قیام سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ، اٹارنی جنرل کے دلاٸل سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کالعدم دفعات کے تحت ماضی میں ہو چکے فیصلوں پر اثر نہیں پڑے گا ، زیر التوا اپیلیں متعلقہ فورم پر سزاوں کی قانونی حیثیت کا معاملہ اٹھا سکیں گے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا تفصیلی فیصلہ 125 صفحات پر مشتمل ہے ، فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ، سپریم کورٹ نے مختصر حکمنامہ میں سویلینز کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل روکتے ہوئے 9 مئی میں ملوث ملزمان کے مقدمات عام عدالتوں میں بھجوانے کا حکم دیا۔
جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941 کے ایک جملے سے کی۔ جس میں کہا گیاکہ لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہورزمانہ تقریرمیں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے ، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔
تحریری فیصلہ میں 9 مئی واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کا ایک سیکشن 1967 میں اس وقت شامل ہوا جب ملک میں مارشل لاء نافذ تھا ،کرنل ریٹائرڈ ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اس وقت ملک میں عبوری آئین تھا 9 اور 10 مئی کے دو دنوں میں فوجی تنصیبات پرحملے کئے گئے شہدا کے مجسموں کونقصان پہنچا گیا، کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کے خلاف خصوصی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا سب کی ایک ہی متحد آوازتھی کہ ایسے واقعات پر قانون حرکت میں آنا چاہیے اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں،
فوجی حکام نے متعلقہ دہشت گردی کی عدالتوں سے رجوع کرمتعلقہ ملزمان کی حوالگی مانگی نتیجے میں 103 ملزمان کوخصوصی عدالتوں کی حراست میں دیا گیا ان ملزمان کا ٹرائل لازمی ہونا چاہیے تاہم ملک حالت جنگ یا ایمرجنسی نہیں ہے اس سے ملزمان کا ٹرائل معمول کی عدالتوں میں کیا جانا چاہیے ،جسٹس یحیی آفریدی نے 25 صفحات پرمشتمل علیحدہ نوٹ کو بھی تحریری فیصلے کا حصہ بنایا گیا، جسٹس عائشہ ملک نے بھی اضافی نوٹ میں انڈین ملٹری ایکٹ کا حوالہ دیا