خلیج اردو: ان سے آٹوگراف لینے کیلئے حسیناوں کی لائن لگ جاتی تھی،
وہ حقیقی معنوں میں ہیرو تھے،وہ اسکواش کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنے کیریئر میں 8 مرتبہ ورلڈ اوپن ریکارڈ اور چھ مرتبہ برٹش اوپن جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا.
ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی اسکواش کھیل میں پاکستان کی حکمرانی کا پچاس سالہ دور ختم ہوا.
جان شیر خان جو بہت ساروں کی جان تھا، پاکستان کا شیر تھا اور خان و شان تھا.
برطانیہ کی ہیتھرو ائیرپورٹ پر ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہجوم امڈ آتا تھا.
یہ تب کی بات ہے جب اس کا نام تھا، فریم تھا، شہرت تھی، میدان تھا اور جوانی تھی.
اب مگر
وہی جان شیر خان دن بھر مسجد کے ایک کونے میں دیدہ عبرت بنے سر جھکائے پڑے ہوتے ہیں.
کوئی ان سے آٹوگراف لینے نہیں آتا، کوئی ان کے ساتھ فوٹو بنوانے نہیں رکتا،
نمازیوں کیلئے وہ ایک زہنی بیمار شخص ہیں، سپارہ پڑھنے آنے والے بچوں کی تفریح کیلئے ایک پاگل.
جان شیر خان پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہیں یہ بیماری انسان کے دماغی خلیوں کو جکڑ لیتی ہے.
اس بیماری کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے.
مختصر یہ کہ جوانی، حسن، شہرت ،کامیابی اور نام کسی شے کیلئے دوام اور بقا نہیں ہے.
لہذا اپنے اچھے وقت میں برے وقت کی تیاری کیجئیے.
بقلم فردوس جمال!!!