
خلیج اردو
21 اپریل 2021
دبئی : یہ کہانی ہے 53 سالہ ایرون ڈیویڈ سینڈر کی ہے جو الکوحل کی لت میں اتنا پڑ گیا تھا کہ وہ زندگی ختم کرنے کے قریب تھا کہ پھر اسے اسلام سے روشناس ہونا پڑا اور وہ ایمان لے آیا۔
سینڈر جن کا اب اسلامی نام ہارون ہے کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے سال اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے عئن قریب تھا۔ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے سے ایک لمحہ دور تھا کہ رب تعالی نے اس پر مہربانی کی اور اسے زندگی کا مقصد سمجھنے کیلئے سوچنے پر مجبور کیا۔
ایک سال قبل اسلام قبول کرنے والے ہارون متحدہ عرب امارات میں اب روزہ سے ہے۔
ہارون اس مشکل وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنی 19 ویں منزل کی بالکونی پر کھڑا تھا اور اپنی زندگی کو ختم کرنے کیلئے اپنے فیصلہ کرنے پر غور کر رہا تھا ۔ میں نے خدا سے بلند آواز میں پکارا کہ میں آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں۔ میں اپنے شراب نوشی سے بے زار ہوں۔ پھر میں نے آسمان کی طرف دوبارہ دیکھا اور خدا سے دوبارہ پوچھا کہ کیا وہ واقعتا میری بات سن رہا ہے۔
میں نے ایک لمحہ میں جادوئی منظر دیکھا۔ سیکنڈوں کے اندر ہی آسمان چمک اٹھا اور میں نے بجلی کی طرح تین روشنی کی چمک کو دیکھا۔ میں نے موسم کا جائزہ لیا اور کوئی طوفان نہیں پھیل رہا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ میں شراب سے اپنی جدوجہد پر قابو پاؤں گا۔ میں اپنے آپ میں پرسکون تھا۔ اس وقت سے میں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگا اور میری زندگی میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔
ہارون نے زندگی میں صحیح راستے کیلئے دعا شروع کی اور چیزوں کو اپنا فطری راستہ اختیار کرنے دیا۔
“میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کس طرح اسلام کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن میں جانتا تھا کہ جب میں نے اذان سنی تھی تو مجھے اندرونی سکون ملتا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک موبائل ایپلی کیشن ملا جس میں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ قرآن خوانی کی گئی تھی۔ قرآن کو سننے سے مجھے اندرونی سکون اور روحانی تسکین کا احساس ہوا۔ قرآن نے میری ذاتی جدوجہد کو تقویت بخشی اور فوری طور پر یہ میری راحت کا ذریعہ بن گیا جس نے مجھے نشے کے ساتھ اپنی لڑائی پر قابو پانے میں مدد فراہم کی۔
فروری میں ہارون نے اسلام کے بارے میں کچھ سوالات کیلئے زید ہاؤس کا رخ کیا۔ جب میرے سوالات کے جوابات دیئے گئے تو مجھ سے فون پر بات کرنے والی خاتون نے پوچھا کہ کیا میں شہادت کیلئے تیار ہوں ، میں سمجھ گیا کہ یہی بہتر وقت ہے اور میں نے خوشی کے ساتھ پکار کہ میں گواہی دیتا ہوں اور میں نے بار بار شہادت دی اللہ تعالی پر ایمان کی۔
مجھے ایک خوبصورت احسان نے جھکڑ لیا اور میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے۔ تب سے زندگی بہت ہی عمدہ رہی۔ مجھے یہاں متحدہ عرب امارات میں رہنے میں واقعی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں سے میرا پہلا تعارف تھا اور میں نے انھیں انتہائی مہربان پایا ۔
ہارون امریکہ میں اپنے اہل خانہ سے ملنے گیا تھا جب رمضان کے مقدس مہینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
ہارون کا کہنا ہے میں نے رمضان کے پہلے دن متحدہ عرب امارات کیلئے پرواز کرنا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا مجھے اپنا پہلا روزہ چھوڑنا چاہئے کیونکہ مجھے 22 گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑا۔ لیکن میں نے اللہ کی محبت کیلئے یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب میں سفر کر رہا تھا تو میں نے ماہ مقدس کے پہلے دن کا روزہ رکھا۔
اس دن روزہ رکھنے کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ لیکن میں نے یہ کام اس لئے کیا کہ میں رمضان کے پہلے دن روزہ رکھنے میں پرجوش تھا۔ 22 گھنٹے سفر کرتے ہوئے روزہ رکھنا ایک چیلنج تھا۔ لیکن اللہ نے مجھے کامیابی کی توفیق دی اور تب سے یہ سب اچھا رہا ہے۔
ابوظہبی میں رہنے والا ہارون دو سال سے تھوڑا زیادہ عرصے سے متحدہ عرب امارات میں رہ رہا ہے۔
ہارون کا کہنا ہے کہ رمضان میں زیادہ تر وقت اسلام کے بارے میں سیکھنے میں لگاتا ہوں ، میں باحثیت مسلمان روزہ رکھنے کے اس احساس کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے دو بچے اور ایک بیوی امریکہ میں مقیم ہیں اور انہیں ابھی اسلام میں اپنی زندگی تبدیل کرنی ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے کہون گا کہ وہ میرے ساتھ تعاون کرے تاکہ میرا یہ سفر باخوشی گزرے۔
ہارون کا کہنا ہے کہ یہ پہلا ہفتہ میری زندگی کا سب سے سنہرا وقت تھا۔ میں نہیں جانتا کہ میرا مستقبل کیا ہوگا لیکن ایک خوشگوار زندگی میرا انتظار کررہی ہے۔
Source : Khaleej Times