خلیج اردو: متحدہ عرب امارات میں ڈاکٹروں نے خبردارکیا ہے کہ بیمار بلڈنگ سنڈروم (ایس بی ایس) سے متعلق کیسوں کی تعداد میں اضافے کے بعد کام کی جگہوں کا ماحول کارکنوں کی صحت کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔
دفتری ملازمین ہرماہ طبی کلینکوں میں معائنے کے لیے جاتے ہیں اورسردرد، گلے میں خراش، آنکھوں میں خارش، سانس لینے میں دشواری اور جلدی امراض کی شکایت کرتے ہیں۔یہ تمام ایس بی ایس سے متعلق علامات ہیں۔
ایس بی ایس کو غیرصحت مند یا تناؤ والے عوامل سے منسوب کیا جاتا ہے۔جیسے ہوا کے دخول اور اخراج کا خراب نظام،دھول اورہوا کے دیگرذرّات ہیں۔
ابوظبی کے برجیل ہسپتال میں سانس کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹرترلوک چند نے العربیہ کو بتایا کہ بیمار بلڈنگ سنڈروم اس وقت ہوتا ہے جب کسی شخص کو دفاتر،گھروں اور اسکولوں کی عمارتوں میں اندرون خانہ ہوا کے معیار کی وجہ سے صحت پرمنفی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’’سک بلڈنگ سنڈروم ہوا کے خراب دخول وخروج (وینٹی لیشن)، دھول، قالین ریشوں، اور فنگل بیجوں سے خراب ہوا کے معیارکی وجہ سے ہوتا ہے۔عمارتوں میں ہوا کا معیار بھی گرمیوں میں ہونے والی آلودگی یا ریت کے طوفان جیسے عوامل کی وجہ سے بیرونی ہواکے معیار سے متاثرہوتا ہے۔آخرکار، عمارتوں میں ہوا کا بہاؤ باہر سے آتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں، خراب وینٹی لیشن اور بھیڑ بھی انفیکشن کا سبب بن سکتی ہے‘‘۔
خراب ہوا کے معیارکی وجہ سے، متحدہ عرب امارات بھر میں مریضوں کوسانس کی علامات کے ساتھ ساتھ جلد اورآنکھوں کی الرجی کی شکایت ہوسکتی ہے. سانس کی علامات میں کھانسی، گلے میں درد، چھینکیں ، بے خوابی اور سر درد شامل ہیں۔
انھوں نےبتایاکہ ’’ہم سک بلڈنگ سنڈروم کے ساتھ مریضوں کو دیکھتے ہیں۔حال ہی میں ہمارے پاس کچھ اساتذہ آئے۔انھیں اسکولوں کو دوبارہ کھولنے پر خراب وینٹی لیشن کی وجہ سے ان علامات کا تجربہ ہوا تھا‘‘۔ سک بلڈنگ سنڈروم والے مریضوں میں بعض اوقات دمہ اور سی او پی ڈی جیسی علامات ہوتی ہیں۔خراب ہوا کے معیارکی وجہ سے، سانس کی علامات ہوسکتی ہیں۔ان مریضوں میں خناق، سانس کے انفیکشن، نمونیا، اور الرجی کی علامات، بشمول جلد اورآنکھوں کی الرجی جیسے مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر چند نے کہا:’’صحت کے حکام یہاں اتنے چوکس ہیں کہ وہ باقاعدگی سے ہوا کے خراب معیار اور دفاتر اور رہائش گاہوں کی حالت کی وجہ سے غیرمعمولی علامات کے اضافے پر نظررکھتے ہیں۔تاہم، آجروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ کام کی جگہ میں صاف ہوا کا انتظام کریں۔دفاتر صاف ستھرے ہونے چاہئیں اور قالین کم سے کم جگہ پر بچھاہوناچاہیے۔ہوا کے گذرکے نظام کو وقتاً فوقتاً چیک کیا جانا چاہیے اورائیرکنڈیشننگ نظام کی ماہرٹیم کے ذریعے اچھی طرح سے صاف کیا جانا چاہیے‘‘۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ اگرآپ اندرون عمارت ہوا کے معیارکوبہتربنانا چاہتے ہیں اور بیمار بلڈنگ سنڈروم سے بچنا چاہتے ہیں تو،آپ ہوا کو صاف کرنے والے اچھے معیاری اورمؤثرنظام کی تنصیب کرسکتے ہیں جو دھول کے ذرّات، وائرس اور دھوئیں کوجذب کرکے ہوا کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ایک اور کارروائی جو کی جاسکتی ہے وہ دفتری علاقوں میں تمباکو نوشی پر پابندی کا نفاذہے۔ تمباکو نوشی کام کی جگہ میں ایک انسان ساختہ آلودگی ہے جو ایک ہی جگہ پر کام کرنے والے ملازمین کو متاثر کرسکتی ہے۔
ہوا کے گزرکے بہترنظام کی ضرورت
این ایم سی اسپیشلٹی ہاسپٹل، دبئی انوسٹمنٹ پارک کے پلمونولوجسٹ اور سلیپ میڈیسن فزیشن ڈاکٹر گوپال چاولہ نے العربیہ انگریزی کو بتایا کہ آجروں کو اپنے عملہ کی فلاح و بہبود کی حفاظت کے لیے بہتر وینٹی لیشن سسٹم اور ہوا کے معیارکے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
ڈاکٹرچاولہ نے کہا کہ ’’بیرونی فضائی آلودگی کے بارے میں بہت تشویش ہے، پھر بھی ہم اندرون عمارت آلودگی کے بارے میں شاید ہی سوچتے ہیں۔ سک بلڈنگ سنڈروم ایک نیا تصورنہیں ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں ایک طویل عرصے سے موجود ہے۔یہ کچھ مخصوص عمارتوں میں لوگوں میں دیکھا گیا ہے جہاں وہ کام کررہے ہیں یا رہ رہے ہیں جہاں ان میں آنکھوں میں خارش اورپانی بہنے، گلے میں خراش ، خشک کھانسی ، بہتی ہوئی ناک ، بے چینی یا سانس لینے میں دشواری جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ ’’یہ علامات بہت آہستہ آہستہ پیداہوسکتی ہیں لہٰذا بہت سے لوگوں کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ کب شروع ہوتی ہیں۔پھرایک دن وہ سب ان کے بارے میں بہت زیادہ آگاہ ہوجاتے ہیں۔یہ بظاہراتنامتغیّر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی عمارت کے لوگوں میں مختلف علامات ہوسکتی ہیں ، اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ اصل وجہ ایک ہی ہے‘‘۔
ڈاکٹرچاولہ بتاتے ہیں:’’ جن کارکنوں کو ایک سے زیادہ علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہےانھیں طبی مشورہ لینا چاہیے۔ان علامات کوجاننے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر یہ علامات دو بارہ نمودارہوتی ہیں، جب آپ کسی خاص جگہ پرہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اگرعلامات غائب ہوجاتی ہیں جب آپ چھٹیوں یا کسی اورجگہ پر دور ہوتے ہیں‘‘۔
’’ہمارے کلینکوں میں ہمیں اس طرح کے بہت سے مریض ملتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کھانسی اور ناک کے مسائل کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں جبکہ کچھ کوسانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔نیز ان امراض کا خواتین اور معمولی کام کرنے والوں میں پھیلاؤ زیادہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر چاولہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں لوگ ان عمارتوں میں زیادہ حساس ہوتے ہیں جہاں اندرون میں درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے (ایئر کنڈیشنڈ عمارتوں میں 23 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ)، ایئر کنڈیشنڈ آفس میں کم تازہ ہوااور بحالی کے مسائل، جیسے پانی کا رساؤ اور ناقص صفائی ستھرائی جو بیکٹیریا اور فنگس جیسے انفیکشن کا سبب بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم قریباً 8000 لیٹر ہوا میں (ہر روز) سانس لیتے ہیں اور اس میں سے 90 فی صد گھر کے اندر ہے۔لہٰذا ، کام کی عمارتوں کے ساتھ ساتھ گھروں کو تازہ ہوا کی باقاعدگی سے آمد کے ساتھ صاف شدہ ڈکٹ سسٹم کو مناسب طریقے سے فٹ کرنا چاہیے۔ نالیوں کے علاوہ، صفائی کے کیمیکلز، کیڑے مار ادویہ، قالین، یہاں تک کہ خوشبودار ایئر فریشنر بھی ایس بی ایس علامات کے ذمہ دارہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کی جگہوں کوصاف رکھنا ضروری ہے کیونکہ دھول کے ساتھ ساتھ مائکروآرگنزم ان علامات کا سبب بن سکتے ہیں۔بہت سے فنگل اور بیکٹیریل انفیکشن ڈکٹ سسٹم کے ذریعے پھیلتے ہیں۔پانی کامسلسل رساؤ فنگس کے لیے زرخیز زمین کے طور پرکام کرتا ہے اور اس کے بیج قریبی عمارتوں میں تیزی سے پھیلتے ہیں۔آلودگیوں کے لیے ایچ وی اے سی کی جانچ پڑتال ، کھڑے پانی اور بوندوں پرنظررکھنے اوروینٹی لیشن کی دیکھ بھال سے عمارت میں رہنے والے یاکام کرنے والوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔