پاکستانی خبریں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی 5 رکنی بینچ نے شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا،

خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی بطو رجج برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوکت صدیقی کو الزامات
ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، جج کو شفاف ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا دھچکا ہے، شوکت صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا، ریٹائرڈ جج ہی تصور کیا جائے۔

 


سماعت 23 جنوری 2024 کو مکمل ہوئی تھی ۔ فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی اور نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے، وہ بطور ریٹائرڈجج اسلام آباد ہائیکورٹ تمام مراعات وپینشن کے حقدارہوں گے،

 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلاشبہ شوکت صدیقی نے فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے، انہیں اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا،عدالت نے خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کیے
جن پر الزامات لگائے گئے، سب نے الزامات سے انکار کیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کیس کے دو پہلو ہیں۔

 

پہلا پہلو عدلیہ کی آزادی، دوسرا بغیر کسی خوف یا لالچ کے آزادی کے ساتھ فیصلے کرنا اور عدلیہ کی خود احتسابی، عدالت کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ درخواستیں مفاد عامہ کے تحت قابلِ سماعت ہیں، عدلیہ کی آزادی کے بغیر بنیادی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنے حلف کی کیسے خلاف کی تھی، انکوائری کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات جھوٹے تھے۔

 

عدالتی فیصلے کے مطابق ججوں کا حلف انہیں بار ایسوسی ایشن یا کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے سے نہیں روکتا،
اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کروائے گئے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شوکت صدیقی کے الزامات بے بنیاد تھے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے عہدے سے ہٹانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button