پاکستانی خبریںعالمی خبریںکالم

عمران خان کا جیل سے کالم: دنیا کو کیوں پاکستان پر توجہ دینی چاہیے؟

خلیج اردو
تحریر: عمران خان
جیسے ہی ہم 2025 میں داخل ہوئے ہیں، میں پاکستان کی تاریخ کے ایک نہایت ہی ہنگامہ خیز اور کٹھن دور پر غور کرتا ہوں۔ ایک تنہائی کے قید خانے میں بند رہ کر میں اس حقیقت کو دیکھ رہا ہوں کہ ہمارا ملک آمرانہ طرزِ حکمرانی کی گرفت میں ہے۔ مگر اس سب کے باوجود، میں پاکستانی عوام کی استقامت اور انصاف کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔

میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے مقدمات محض ایک بہانہ ہیں تاکہ میری جمہوریت کے لیے جدوجہد کو دبایا جا سکے۔ مگر یہ جنگ صرف میری ذات تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا زوال وسیع تر اثرات کا حامل ہے۔ ایک غیر مستحکم پاکستان خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، تجارت میں خلل ڈال سکتا ہے، اور عالمی جمہوری اقدار کو کمزور کر سکتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی شدت کو سمجھنا ہوگا—یہ نہ صرف پاکستان کے مستقبل کے لیے بلکہ جنوبی ایشیا اور عالمی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کی بقا کا براہِ راست تعلق علاقائی اور عالمی سلامتی سے ہے، وہاں جمہوری آوازوں کو دبانا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے، جو ہر اس شخص کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے جو آزاد اور منصفانہ حکمرانی پر یقین رکھتا ہے۔

پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

گزشتہ سال جبر اور استبداد کی بدترین مثالیں سامنے آئیں۔ میری جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، اور اس کے حامیوں پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن نے دنیا کو حیران کر دیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ ان گرفتاریوں اور فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے سیاسی مقدمات کو ریکارڈ کر چکے ہیں۔ اب تک 103 پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں کو ان عدالتوں سے سزائیں دی جا چکی ہیں، جو پاکستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جن میں بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) بھی شامل ہے۔

ان مظالم کے اثرات عام پاکستانیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان یورپی یونین سے حاصل کردہ تجارتی مراعات کھونے کے خطرے سے دوچار ہے، جو ہماری معیشت، بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے، کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر حکمران طبقہ بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔

جمہوریت کا زوال اور دہشت گردی میں اضافہ

پاکستان میں جمہوریت کے کمزور ہونے کے ساتھ ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔

پاکستانی فوج، جو ان سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی ذمہ دار ہے، اپنے وسائل کو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں جھونک چکی ہے۔ عدلیہ، جو انصاف کا ستون ہونی چاہیے، سیاسی انتقام کا آلہ بن چکی ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات اب پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کھولے جا رہے ہیں، جہاں انہیں بے بنیاد الزامات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔

ہزاروں گھروں پر چھاپے مارے گئے، خاندانوں کو ہراساں کیا گیا، اور خواتین و بچوں تک کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کارکن، بیرونِ ملک حامی، اور کارکنوں کے اہلخانہ کو اغوا کر کے خوفزدہ کیا جا رہا ہے تاکہ اختلافِ رائے کو دبایا جا سکے۔ ہماری جماعت نے 12 کارکنوں کی شہادت کو ریکارڈ کیا ہے، جو اسلام آباد میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مذاکرات اور آمریت کے خلاف مزاحمت

حالانکہ مجھے ملک کی موجودہ قیادت پر گہرے تحفظات ہیں، خصوصاً ان دھاندلی زدہ انتخابات کے حوالے سے جن کے نتیجے میں یہ حکومت قائم ہوئی، مگر میں نے پی ٹی آئی قیادت کو مذاکرات کے لیے کہا تاکہ مزید خونریزی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔

ہمارا مطالبہ واضح تھا: پی ٹی آئی کارکنوں اور نہتے مظاہرین پر حملوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

اس کے جواب میں، مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کی گئی، ساتھ ہی پی ٹی آئی کے لیے ایک مبہم "سیاسی گنجائش” دینے کی بات کی گئی، جسے میں نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔

دوسری طرف، پارلیمنٹ اب صرف آمریت کی پالیسیوں کی توثیق کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے، آزادی اظہار کو دبانے، اور اختلافِ رائے کو جرم قرار دینے والے قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی اختلافِ رائے کو "ملک دشمنی” قرار دے کر جبری گمشدگیوں اور سخت انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت کچلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے آخری آثار بھی ختم کیے جا چکے ہیں۔

پاک فوج کو آئینی دائرے میں رہنا ہوگا

پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو آئین کے دائرے میں رہنے اور جمہوری عمل کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان حقیقی جمہوری نظام میں ترقی کر سکتا ہے—ایسا نظام جو عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے قائم ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آمریت ہمیشہ عارضی رہی ہے، لیکن اس کے برے اثرات نسلوں تک قائم رہتے ہیں۔ ہماری قوم کا مستقبل جمہوریت کے استحکام میں مضمر ہے، نہ کہ اسے دبانے میں۔

عوام کی بیداری امید کی کرن ہے
ان تمام تاریکیوں کے باوجود، پاکستانی عوام پہلے سے زیادہ باشعور اور بیدار ہو چکے ہیں۔ وہ جھوٹ اور فریب کو پہچان چکے ہیں، اور ان کا عزم ہی میری امید کا سب سے بڑا سہارا ہے۔

انصاف اور عزت کے لیے جدوجہد آسان نہیں، مگر یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے لڑنا ضروری ہے۔ میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ سچائی فتح یاب ہوگی۔ ہم سب مل کر ایک ایسا پاکستان تعمیر کریں گے جہاں عوام کے حقوق محفوظ ہوں اور جمہوریت بحال ہو۔

عالمی قیادت اور پاکستان کا مستقبل
پاکستان میں ہونے والے یہ واقعات عالمی برادری کے لیے بھی ایک اہم موڑ ہیں۔ دنیا پہلے ہی بے شمار بحرانوں، تنازعات، اور معاشی عدم استحکام کا سامنا کر رہی ہے، اور ایسے وقت میں مضبوط اور اصول پسند قیادت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

اسی تناظر میں، میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو جنوری میں ان کے تاریخی عہدہ سنبھالنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی شاندار سیاسی واپسی ثابت کرتی ہے کہ عوام کی طاقت سب سے بڑی ہوتی ہے۔

ان کے پہلے دورِ حکومت میں، پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم رہا، جو باہمی احترام پر مبنی تھا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی قیادت میں امریکا جمہوری اصولوں، انسانی حقوق، اور قانون کی حکمرانی کے عزم کو مزید مستحکم کرے گا—خصوصاً ان خطوں میں جہاں آمریت ان اقدار کو کمزور کر رہی ہے۔

ہم امریکا سے ایسی اقتصادی شراکت داری کی بھی امید رکھتے ہیں جو پاکستان جیسے ممالک کو خودکفیل معیشتیں بنانے میں مدد دے۔ منصفانہ تجارتی پالیسیاں، اہم شعبوں میں سرمایہ کاری، اور علاقائی استحکام کے لیے کوششیں نہ صرف ترقی کو فروغ دیں گی بلکہ ان حالات کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گی جو تنازعات اور انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔

جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، میں پاکستان کے لیے اپنے وژن پر قائم ہوں—ایک ایسا ملک جو انصاف، مواقع، اور مساوات کی بنیاد پر استوار ہو۔ آگے کا راستہ مشکل ضرور ہوگا، مگر میں پرامید ہوں کہ پاکستانی عوام اپنی یکجہتی اور عزم سے ان چیلنجز پر قابو پائیں گے۔ ہم سب مل کر ایک روشن مستقبل تعمیر کریں گے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button