
خلیج اردو
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیشنل پارک پیر سوہاوہ روڈ پر موجود مونال سمیت تمام ریسٹورنٹ تین ماہ میں مکمل ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے آئین و قانون کو دیکھ کر نیشنل پارک کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ عدالت نے سی ڈی اے کی رپورٹ بھی مسترد کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ ہم نے مارگلہ نیشنل پارک میں تمام تعمیرات کی رپورٹ دی ہے۔ چیف جسٹس نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کی رپورٹ میں اسپورٹس کلب پاک چائنہ سنٹر بھی شامل ہے۔
آرٹ کونسل نیشنل مانومنٹ کا نام بھی شامل کردیا ہے۔ کیا نیشنل مانومنٹ اسپورٹس کمپلکس کو گرانے کا حکم دیدیں۔یہ سی ڈی اے کی ایمانداری ہے۔ کیا سی ڈی اے کا اپنا دفتر بھی نیشنل پارک میں ہے۔ پھر اسے بھی گرانے کا حکم دیدیں۔ دنیا کو معلوم ہے مونال کیساتھ مزید کتنے ریسٹورنٹس ہیں۔ نہیں معلوم تو سی ڈی اے کو معلوم نہیں۔
عدالتی حکم پر چیئرمین سی ڈی اے پیش ہوئے اور بتایا کہ اس سیزن میں اکیس مرتبہ مارگلہ کے پہاڑوں پر آگ لگی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سی ڈی اے والے خود آگ لگاتے ہیں۔چیئرمین نے موقف اپنایا کہ کچھ کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں۔ کابینہ کی منظوری کے بعد آگ بجھانے کےلئے این ڈی ایم اے سے ہیلی کاپٹر لیے گئے۔
عدالت نے مونال کے اطراف دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس تین ماہ میں مکمل ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارک سے باہر کہیں بھی لیز مقصود ہو تو متاثرہ ریسٹورنٹس کو ترجیح دی جائے۔مونال ریسٹورنٹ انتظامیہ نے رضاکارانہ طور پر منتقلی کی یقین دہائی کرا دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا میں دیکھ لیں کہیں بھی نیشنل پارک میں ریسٹورنٹ موجود نہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمارا مقصد نیشنل پارک کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔نیشنل پارک کے علاوہ قائم دیگر تمام ریسٹورنٹس کو جاری کیے گئے غیر ضروری نوٹس ختم کیے جاتے ہیں۔