
خلیج اردو
اسلام آباد:سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کی درخواست پر سماعت جمعرات تک ملتوی۔۔۔سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائے گئی مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے کی ہدایت کردی۔جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن سے پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے الیکشن سے پہلے شکایات کی تفصیلات بھی مانگ لیں۔
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی زیر صدارت 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی ۔۔ْْدوران سماعت ججز نے ریمارکس دیئے کہ متناسب نمائندگی کے اُصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔
چیف جسٹس نے ریما رکس میں کہا مجھےپہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریک انصاف کیوں نہیں سامنے آرہی، پی ٹی آئی کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئےگا، خریدنا تو ضروری ہےنا،اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے ریما رکس میں کہا پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا،الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریما رکس میں کہا ، الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، اس مؤقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا،، ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا،کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلریشن دے کر دوسری میں چلا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں،الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفکیشن کے تین روز بعد وہ کسی اور جماعت میں شامل ہوجائے۔
جسٹس اطہر امن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے ،،حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں،،مسئلہ الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی،اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟
انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم درخواست 8فروری کے الیکشن میں دھاندلی کی ہے،لاپتہ افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں،یہ سب سیاستی مقدمات نہیں،ہم نے بطور سپریم کورٹ سر ریت میں دبا لئے ہیں ،ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا۔
جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دئیے دوسال پہلے حکومت میں رہنے والی بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا،الیکشن کمیشن کوئی اور نشان دے کر کہہ دیتا امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، جسٹس اطہر من اللہنے کہاانتخابی نشان سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے وہ فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن کا تھا،انتخابی نشان کا نہیں، عدالتی فیصلے پر ریمارکس نہیں آنے چاہئیں نظر ثانی زیر سماعت ہے، سیاسی جماعتوں میں کوئی جمہوریت نہیں چاہتا، صرف بلے کے الیکشن کی بات کی جارہی ہے، تذکرہ نہیں کرنا چاہتا تھا ،بار بار باتیں کی گئیں