پاکستانی خبریں

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی،اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی ہے تو اس میں غلط کیا ہے،ریکوڈک ہو ذوالفقار بھٹو کیس ہم سے غلطیاں ہوئیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیئے،،، کہا یہ کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ قانون سے بالاتر ہے،،، انہوں نے وکیل امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے میں جو لکھا ہے، وہ آپ کی دلیل کی نفی کر رہا ہے، ہمیں ڈرائیں مت،،، صرف دلائل دیں،،، وکیل کاکام ہے بتائے اس فیصلے کے فلاں صفحے پریہ لکھا ہے،،، موجودہ کیس تک محدود نہیں رہیں،،، نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کی دلیل سے اتفاق کروں اور درخواست مسترد کر دوں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں بہت کچھ غیرآئینی ہو رہا ہے، کیا ملک میں جو کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے وہ 184/3 کے اندر آئےگا؟،،، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہوگا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسرسائز نہیں ہوگی؟

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ مارشل لا دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے آئین اور قانون کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہے، آئین اللّٰہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، سپریم کورٹ کی آزادی سے نہیں،،، میں مارشل لا دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو،،، ریکوڈک کیس میں عدالتی فیصلے سے ملک کو ساڑھے 6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اس کیس میں سپریم کورٹ نے ایڈوائزری دائرہ اختیار استعمال کیا تھا۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ قانون کو غیرآئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس شق سے متصادم ہے؟ بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا، اگر پارلیمنٹ نے بہت زور دار وار کیا ہوتا تو ہم از خود نوٹس لیتے، وہ بتائیں جو آئین کی خلاف ورزی ہوئی وہ کیا ہے؟ سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار کیا ہے؟ جہاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی وہ بتایا جائے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ثابت کرنا مدعی کا کام ہے کہ کیس مفادِ عامہ کا ہے یا نہیں، ہمارے پاس اضافی اختیارات نہیں بلکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت محدود اختیارات ہیں،،، کیا بنیادی حقوق یا مفادِ عامہ کے معاملے پر پہلے ہائی کورٹس نہیں جانا چاہئے تھا؟،، اگر 3 رکنی بینچ پر 5 رکنی بینچ کا فیصلہ لاگو ہوتا تو ججز کبھی اختلافی فیصلہ نہ دے سکتے۔

جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وہ ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں،،، ایسے اختیارات نہیں چاہتے،،، جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button