خلیج اردو: متحدہ عرب امارات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جسمانی صحت کے لیے روزے کے فوائد اچھی طرح سے دستاویزی ہیں لیکن اس عمل کےاثرات مسلمانوں کی ذہنی صحت کے لیے بھی فائدہ مندثابت ہوسکتے ہیں اور روزہ اضطراب، ڈپریشن اور تناؤ میں مدد کر سکتا ہے۔
ابوظہبی کے برجیل اسپتال میں ماہرنفسیات ڈاکٹر ندا عمرمحمد البشیر کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت پر روزے کے مثبت اثرات کے بارے میں اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ’’جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان میں ڈپریشن، اضطراب اور یہاں تک کہ تناؤ کی علامات میں بہتری کا تجربہ ہوتا ہے۔وہ رمضان کے دوسرے ہفتے میں تھکاوٹ میں کمی کی بھی اطلاع دیتے ہیں۔ اس کی وجہ کیٹون میٹابولزم اوراس کے سوزش مخالف اثرات کو قراردیا جاسکتا ہے جو تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں کردارادا کرتے ہیں‘‘
نیورو ٹرانسمیٹر دماغ کے ضروری کیمیائی اجزاء ہیں۔ یہ سگنل بھیجتے ہیں جو نہ صرف ہمارے کام کرنے،بولنے اورسوچنے کے طریقے کومتاثرکرتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ہم کس طرح محسوس کرتے ہیں۔بہت سے مطالعات سے پتاچلا ہے کہ روزہ رکھنے سے خون میں سیروٹونن کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے،یہ ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو ڈپریشن اور اضطراب سے مضبوطی سے منسلک ہے۔ڈوپامائن، ایک اور نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو ڈپریشن اور نفسیات سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، روزہ رکھنے سے تبدیل نہیں ہوتا ہے۔مستقبل میں اس موضوع پرمزید بھی مطالعات ہورہے ہیں جن کے نتائج شاید اس کے برعکس ثابت ہو سکتے ہیں۔
تاہم، ڈاکٹر نے کہا کہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ رمضان میں ان افراد کوروزہ تجویز نہیں کیا جاتا ہے جو طبی پیچیدگیوں کے خطرے سے دوچارہیں یاجو پہلے سے ذہنی صحت کے حالات میں مبتلا ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ جسمانی اور ذہنی صحت کی باریک بینی سے نگرانی کریں اور اگر ضروری ہو تو پیشہ ورمعالجین سے مشورے حاصل کریں۔
جن لوگوں کو اپنی ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ مقدس مہینے سے پہلے معالج سے بھی مشورہ کریں۔انھوں نے کہا،’’ادویہ کا بروقت استعمال ضروری ہے،خاص طور پر جب خون میں علاج کی سطح مطلوب ہو۔بائی پولر ڈس آرڈر اور انشقاق ذہنی (شیزوفرینیا) میں مبتلا افراد کو اپنی ادویہ کو معالج کے مشورے یا سفارش کے مطابق برقرار رکھنا چاہیے‘‘۔
بہت سے لوگ رمضان میں دن کے وقت اپنی ادویہ کوایڈجسٹ کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں۔ان کے لیے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ اگروہ روزہ کاانتخاب کرتے ہیں تو دوا مکمل مقررہ مقدار میں لی جائے، لیکن افطار یا سحرمیں اوقات کو ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ،اگر یہ لوگ روزہ رکھنے اور وقت کو تبدیل کرنے کاانتخاب کرتے ہیں تو انھیں ادویہ کے بارے میں اپنے ماہر کی رائے لینے کا سختی سے مشورہ دیا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل ماڈرن اسپتال دبئی کی ماہرنفسیات ڈاکٹر فری ناز آغا جان ناشتائی نے بتایا کہ متعدد مطالعات سے پتاچلا ہے کہ روزہ رکھنے سے ذہنی صحت پرمثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جیسے تناؤ، اضطراب اور افسردگی کی علامات کو کم کرنا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک مطالعہ سے پتاچلا ہے کہ’’ رمضان میں روزہ رکھنے سے شرکاء میں تناؤ اور اضطراب کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ایک اور مطالعہ سے پتاچلا ہے کہ روزہ اعصابی لچک (نیوروپلاسٹسٹی) کو بڑھا سکتا ہے، جوافسردگی کی علامات کو کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر ناشتائی نے کہا کہ ذہنی صحت کے ان فوائد کے علاوہ، روزہ دماغی افعال کو بہتر بنانے اور عمر سے متعلق دماغی تنزل کو روکنے میں بھی معاون ہے۔ انھوں نے نشان دہی کی کہ تحقیق سے یہ بھی پتاچلا ہے کہ روزہ فالج کے بعد نیوروڈیجنیشن کو سست کرسکتا ہے اورافعال کی بحالی کو بڑھا سکتا ہے۔
ان اثرات کو مختلف نفسیاتی نیورو اینڈوکرائن میکانزم کی طرف سے ثالثی سمجھاجاتا ہے، جیسے پلازما گھرلین اور سیروٹونن کی سطح میں اضافہ، جو موڈ اور علمی افعال کو بہتر بنا سکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔پانی کی کمی اور تھکاوٹ چڑچڑاپن، موڈ میں تبدیلی اور توجہ میں دشواری کا سبب بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، نیند کے انداز اور غذا میں تبدیلی، اضطراب، افسردگی اورتناؤ کا باعث بن سکتی ہیں۔کچھ افراد مہینے کے دوران میں تبدیل شدہ سماجی تعاملات کی وجہ سے تنہائی اور تنہائی کے احساس کا بھی تجربہ کرسکتے ہیں۔
ذاتی دیکھ بھال کی مشق
ڈاکٹر ناشتائی نے مشورہ دیا کہ جو افراد رمضان میں روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں،انھیں اپنی ذہنی صحت کی حفاظت کے لیے اقدامات کرناچاہییں۔
روزہ کے علاوہ اوقات میں مناسب ہائیڈریشن اور غذائیت سے ایسی جسمانی علامات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے جو ذہنی صحت کومتاثرکرسکتے ہیں۔ مزیدبرآں،جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونے اور سماجی رابطوں کو برقرار رکھنے سے تنہائی اور افسردگی کے احساسات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ رمضان کے دوران میں اچھی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود کی دیکھ بھال کی مشق کی جائے۔اس میں غیر روزہ کے اوقات میں متوازن اور صحت مند غذا کھانا،ہائیڈریٹ رہنا،کافی آرام کرنا، باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی میں مشغول ہونا اور تناؤ سے نمٹنے کے لیے آرام کی تکنیک پرعمل کرنا شامل ہے۔
’’پہلے سے موجود ذہنی صحت کے حالات یا دائمی بیماریوں میں مبتلاافراد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ادویہ یا علاج کے منصوبوں میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے معالجین صحت سے مشورہ کریں‘‘۔
کسی کی جسمانی اور ذہنی صحت کی ضروریات کی مناسب دیکھ بھال اور توجہ کے ساتھ، رمضان ایک بامعنی اور فائدہ مند تجربہ ہوسکتا ہے جو روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی فلاح وبہبود کو فروغ دیتا ہے۔رمضان میں خودکی دیکھ بھال کوترجیح دے کر، افراداس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ وہ اس اہم مذہبی عمل میں مشغول رہتے ہوئے اپنا خیال رکھ رہے ہیں۔
این ایم سی رائل اسپتال کے کنسلٹنٹ نیورولوجسٹ ڈاکٹرسوشیل گرگ نے العربیہ کو بتایا کہ ماہِ مقدس روزہ رکھنے والے افراد کے کھانے پینے کی عادات، نیند کے انداز اور روزمرہ کے معمولات میں تبدیلیاں آئیں گی جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اپنی جسمانی اور جذباتی تن درستی کی دیکھ بھال کے لیے مناسب اقدامات کرکے،افراد اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ صحت مند اور روحانی طور پر رمضان کا تجربہ حاصل کریں۔
ابوظبی کے ایل ایل ایچ اسپتال کے ماہر نیورولوجسٹ ڈاکٹر بوبی بیبی پانی کولم نے العربیہ کو بتایا کہ رمضان کا مقدس مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ذہنی، جسمانی، روحانی تخفیف اور احیاء کا دور ہے۔
انھوں نے خبردارکیاکہ ’’کچھ احتیاطی تدابیر ہیں جو دائمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو سردرد، دردشقیقہ اور دورے جیسے اعصابی مسائل سے نمٹنے کے لیے اختیار کرنا چاہیے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’رمضان میں کچھ ذہنی صحت کے مسائل ڈی ہائیڈریشن،نیند میں تبدیلی، کیفین کی واپسی اور روزے کے اوقات میں خون میں گلوکوزکی کم سطح کی وجہ سے بدترہوسکتے ہیں۔دائمی اعصابی مسائل جیسے ملٹی پل سکلیروسس اوراسٹروک کے مریض جو روزہ رکھتے ہیں،انھیں کسی بھی نئی علامات کی قریب سے نگرانی کرنے اورعلامات ظاہر ہونے کی صورت میں فوری طورپرطبی توجہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
رمضان میں دردشقیقہ کے مریضوں کواس کے متحرک کرنے والے عوامل جیسے تیزروشنی، اونچی آوازوں اورجسمانی اورنفسیاتی تناؤ سے بچنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کیفین کا استعمال کم کریں اور افطارکے وقت اوربعد میں زیادہ تمباکو نوشی سے گریزکریں۔ ڈاکٹرنے افطاراورسحرکے وقت متوازن، صحت مند غذا کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا جس میں سوڈیم کی مقدارکم ہواوراس میں تلی ہوئی غذائیں شامل نہ ہوں۔
انھوں نے کہا:’’علامات کوبہتربنانے اور روزے کے اوقات کے دوران میں درکارتوانائی کی سطح کو بڑھانے کے لیے وقفے وقفے سے متعدد کھانے کا ہدف رکھیں۔روزہ توڑنے سے پہلے چندگھنٹے آرام کرنے کی کوشش کریں۔نیورولوجی کے مریضوں کو بھی کافی نیند لینے کو یقینی بناناچاہیے۔رمضان کے دوران مراقبہ اور دعاؤں پر عمل کرنے سے آپ کو پرسکون رہنے میں مدد مل سکتی ہے،جس سے آپ تناؤ اور منفی جذبات سے نمٹنے کے قابل ہوسکتے ہیں‘‘۔