
خلیج اردو
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اہم آئینی نکات پر سوالات اٹھائے۔ بینچ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرمی ایکٹ میں سویلینز کو لانا ہوتا تو اس میں الگ سے وضاحت کی جاتی، کیونکہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے اور پاکستان کا 1973 کا آئین بہت مضبوط ہے۔
بینچ نے استفسار کیا کہ پِک اینڈ چوز کس بنیاد پر کیا گیا؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ پِک اینڈ چوز کا نہیں، بلکہ ہر کیس کو اس کی نوعیت کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت یا فوجی عدالت میں بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ مارشل صرف زمانہ جنگ میں نہیں بلکہ زمانہ امن میں بھی ہو سکتا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے دلچسپ ریمارکس دیے کہ "خواجہ صاحب ایسا نہ ہو کہ نمازیں بخشوانے آئے ہوں اور روزے گلے پڑ جائیں”، جس پر کمرہ عدالت میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا پہلو بھی دیکھنے میں آیا۔
خواجہ حارث نے اپنے جواب الجواب دلائل مکمل کرلیے، جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو 28 اپریل کو دلائل دینے کی ہدایت کردی ہے۔ کیس کی آئندہ سماعت میں حکومت کا مؤقف پیش ہونے کی توقع ہے، جو عدالت کی آئینی تشریحات کے حوالے سے نہایت اہم ہوگی۔